برائی ہاتھ سےروکنےکے حکم کااکثر غلط مطلب لیاجاتاہے،مفتی تقی عثمانی 

معروف عالم دین کی سماء کے پروگرام سات سے آٹھ میں گفتگو 

معروف عالم دین مفتی تقی عثمانی کا کہنا ہے کہ سیالکوٹ واقعہ نے دل کو بے چین کردیا ہے کیوں کہ ایک تو بے دردی سے ناحق قتل ہوا ہے دوسرا اس سے پاکستان اور اسلام کی بہت منفی تصویر کشی کی گئی۔ 

سماء کے پروگرام ندیم ملک لائیو میں گفتگو کرتے ہوئے مفتی تقی عثمانی کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات سے لوگ غلط فائدے اٹھائیں گے اور خدشہ ہے کہ ملک میں کہیں یہ خطرناک ریت ہی نہ پڑجائے کہ لوگ توہین کا الزام بھی خود لگائیں اور خود قتل کا فیصلہ بھی کرلیں۔ 

مفتی تقی عثمانی کا کہنا تھا کہ جو لوگ مغرب کے تصورات سے متاثر ہوکر توہین رسالت کے قانون کے خلاف ایک خوامخواہ کا پروپیگنڈا کرتے ہیں انہیں بھی ان حالات سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل جائے گا۔ 

انہوں نے کہا کہ سزا دینا انفرادی لوگوں کا نہیں بلکہ ریاست کا کام ہے اور وہ جو حکم حدیث میں آتا ہے کہ اگر کوئی شخص کوئی برائی دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے، اس میں دراصل وہ لوگ مخاطب ہیں جنہیں کسی بھی لحاظ سے کوئی اقتدار حاصل ہو۔ 

مفتی تقی عثمانی نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ مجھے اپنے گھر میں اقتدار حاصل ہے تو میں اپنے گھر میں غلط کام کو ہاتھ کے ذریعے روک سکتا ہوں، کسی ادارے کا سربراہ اپنے ادارہ میں غلط کام کو ہاتھ سے روک سکتا ہے لیکن کوئی غیر متعلقہ شخص یہ عمل کرے تو اسے شریعت میں اس کی اجازت نہیں ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ کسی کو سزا دینا ریاست کا کام ہے عوام کا نہیں اگر لوگ خود ہی سزائیں دینا شروع ہوگئے تو اس سے تو ملک میں انار کی پھیلے گی جس کی شریعت میں اجازت نہیں ہے۔ 

مفتی تقی عثمانی کا کہنا تھا کہ اسلام کے احکامات کو اگر 4 حصوں میں تقسیم کیا جائے تو ایک حصہ عبادات سے جبکہ باقی 3 حصے حقوق العباد سے متعلق ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ حقوق العباد میں مسلم اور غیرمسلم دونوں کے حقوق آتے ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان ریاست میں رہنے والے غیرمسلموں کے جان و مال اور آبرو کی ذمہ داری لی ہے اگر کوئی شخص ان میں سے کسی بھی حق کو پامال کرے گا تو جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا۔ انہوں نے حدیث شریف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ “جو شخص کسی ذمی کو قتل کرے گا وہ جنت کی خوشبو بھی  نہیں پائے گا حالاں کہ اس کی خوشبو 70 سال کے فاصلے سے آتی ہے”۔ 

مفتی تقی عثمانی کا کہنا تھا کہ اگر کوئی شخص حقوق اللہ کی خلاف ورزی کرے تو پھر وہ اللہ سے توبہ کرلے تو اللہ پاک اس شخص کو معاف کردیتا ہے مگر حقوق العباد کے بارے میں یہ حکم ہے کہ جب تک صاحب حق اسے معاف نہ کرے اس وقت تک اس کی توبہ بھی قبول نہیں ہوتی۔ 

انہوں نے کہا کہ شریعت کا حکم سب کے لیے برقرار ہے لیکن اگر کوئی شخص مذہب کے لبادے میں غلط کام کرے تو وہ زیادہ خطرناک اس لیے ہے کیوں کہ اس سے سرزد ہونے والا غلط کام مذہب سے منسوب ہورہا ہے۔ 

مفتی تقی عثمانی کا کہنا تھا کہ توہین رسالت کے قانون کو کچھ لوگوں نے سنجیدہ ہی نہیں لیا کیوں کہ مغرب سے مرعوب لوگوں کا خیال ہے کہ اس قانون سے ہی لوگوں میں قانون ہاتھ میں لینے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے حالاں کہ جو لوگ واقعتاً توہین رسالت کے مرتکب ہوتے ہیں ان کو اس ڈر سے سزا نہ دینا کہ اس سے کہیں مغرب ناراض نہ ہوجائے اس بات سے بھی ہمیں نکلنا چاہیے۔ 

انہوں نے کہا کہ عوام کی تربیت کرنی چاہیے کہ وہ ریاست کے کے کاموں کے فیصلے خود اپنے طور پر نہ کریں کیوں کہ تحقیق اور فیصلہ کرنا عدالت کا کام ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے مزید کہا کہ شریعت میں یہ حکم ہے کہ اگر کوئی قاضی اپنی آنکھوں سے بھی کسی کو جرم کرتے دیکھے تو اس کو سزا دینے کا حق حاصل نہیں بلکہ فیصلہ اسے بھی عدالتی کارروائی کے بعد ہی کرنا ہوگا۔ 





Source link

About admin

Check Also

صدر،وزیراعظم اورنگران وزیراعلیٰ پنجاب کی امت کو رمضان المبارک کی مبارکباد

صدر مملکت عارف علوی، وزیر اعظم شہباز شریف اور نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *