پاکستان کے سابق صدر اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف انتقال کرگئے ہیں۔
سابق صدر پرویز مشرف آج بروز اتوار 5 فروری کو متحدہ عرب امارات ( یو اے ای ) کے شہر دبئی میں انتقال کرگئے ہیں۔ وہ دبئی میں امریکی اسپتال میں زیر علاج تھے اور طویل عرصے سے علیل تھے۔
عسکری ذرائع کی جانب سے بھی سابق صدر کے انتقال کی خبر کی تصدیق کی گئی ہے۔ قوی امکان ہے کہ سابق آرمی چیف کے جسد خاکی کو پاکستان لایا جائے گا۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کو راولپنڈی کے آرمی قبرستان میں سپرد خاک کیا جائے گا۔
سابق صدر پرویز مشرف 18 مارچ، 2016 سے متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی میں علاج کی غرض سے مقیم تھے۔
انتقال کی افواہیں
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پہلے بھی متعدد بار سابق صدر اور آرمی چیف جنرل مشرف کے انتقال کی افواہیں منظر عام پر آئیں، جس پر اہل خانہ کی جانب بارہا تردید کا بیان جاری کیا گیا۔
پرویز مشرف کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ ماہ سے شدید علالت کے باعث دبئی کے اسپتال میں داخل ہیں۔
ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے سابق آرمی چیف کے اہلخانہ نے بیان جاری کیا ہے کہ پرویز مشرف ’خرابی صحت کے اس مرحلے میں ہیں جہاں صحت یابی ممکن نہیں اور اعضا خراب ہو رہے ہیں۔‘
پرویز مشرف کے گھر والوں کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ان کی روزمرہ زندگی میں آسانی کے لیے دعا کریں۔‘
پرویز مشرف کو کون سا مرض لاحق تھا؟
ذرائع کے مطابق پرویز مشرف ایمالوئڈوسس نامی ایسی بیماری میں مبتلا تھے، جس میں پروٹین کے مالیکیول درست طریقے سے تہہ نہیں ہوتے، اس لیے اپنا کام نہیں کر پاتے۔ ایمالوئڈوسس میں پروٹین کا مالیکیول بنتا تو درست طریقے سے ہے، لیکن فولڈنگ میں گڑبڑ ہو جاتی ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ ناکارہ ثابت ہوتا ہے۔
یہ ایک دائمی میٹابولک بیماری ہے جس میں دل ، گردے، جگر اور دیگر اعضا کو نقصان پہنچتا ہے۔
زندگی پر ایک نظر
واضح رہے کہ سابق صدر پرویز مشرف 11 اگست 1943ء کو دہلی میں پیدا ہوئے، 1964 برس میں پاکستان کی بری فوج میں شامل ہوئے، بعد ازاں انہوں نے اسپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی ) میں شمولیت اختیار کی۔ انہوں نے بھارت کے ساتھ ہونے والی 1965 اور 1971 کی جنگوں میں بھی شرکت کی۔ 7 اکتوبر 1998 کو وہ بری فوج کے چیف آف اسٹاف کے منصب پر فائز ہوئے۔
ان کی حکمرانی میں پاکستان 11 ستمبر 2001 کو امریکا پر دہشت گرد حملوں کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا کلیدی اتحادی بن گیا۔
انہوں نے نیٹو کی جانب سے فوجی ساز و سامان کو پاکستان کے ذریعے لینڈ لاک افغانستان تک پہنچانے کی منظوری اور امریکا کو پاکستان کے ہوائی اڈوں کو لاجسٹک سپورٹ کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دی۔
12 اکتوبر 1999 کو انہوں نے بحیثیت آرچیف چیف اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر انہیں گرفتار کرلیا تھا، اور ریفرنڈم کے انعقاد کے بعد صدر منتخب ہوئے تھے۔ بعد ازاں اسمبلیوں نے بھی اس فیصلے کی توثیق کردی تھی۔ تاہم 9 سال بعد پرویز مشرف فوج کے سربراہ کے عہدے سے 28 نومبر 2008 کو سبکدوش ہوگئے تھے اور صدارت سے مستعفی ہو کر ملک سے باہر چلے گئے تھے۔
صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد ان پر متعدد بار دہشت گرد حملے بھی کیے گئے۔ سال 2007 میں سابق صدر نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی، جب کہ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو معزول کرنے کی وجہ سے ملک بھر میں مظاہرے پھوٹ پڑے۔
لندن اور دبئی میں قیام کے دوران انہوں نے کئی لیکچرز بھی دیئے۔
پرویز مشرف پر حملے کب اور کہاں ہوئے؟
جنرل پرویز مشرف پر 14 اور 25 دسمبر 2003 کو راولپنڈی میں دو قاتلانہ حملے کیے گئے تھے، جن کے الزام میں کل 16 افراد کو گرفتار کیا گیا۔
ان میں سے آٹھ افراد پر الزام تھا کہ انہوں نے 14 دسمبر کو راولپنڈی کے علاقے جھنڈا چیچی میں ایک پل کو اس وقت بم سے نشانہ بنایا جب جنرل مشرف کا قافلہ وہاں سے گزر رہا تھا، اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔
جب کہ دیگرآٹھ ملزمان پر راولپنڈی ہی کے علاقے میں جھنڈا چیچی کے نزدیک دو مختلف پٹرول پمپس کے قریب جنرل مشرف کے قافلے پر خودکش حملوں کا الزام تھا جس سابق صدر تو محفوظ رہے لیکن خودکش حملہ آوروں سمیت 12 افراد مارے گئے تھے۔
جن ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا ان میں سے دو کا تعلق فوج جب کہ چھ کا پاکستان فضائیہ سے تھا جب کہ دیگر گرفتار افراد سویلین تھے۔
حملے کے جرم میں گرفتار افراد میں سے ایک پاکستانی فوج کے سپاہی اسلام صدیقی کو2005 میں ملتان جیل میں پھانسی دے دی گئی تھی، جب کہ ایئرفورس سے ہی تعلق رکھنے والے سینئر ٹیک کرم دین اور جونیئر ٹیک نصراللہ کو عمر قید جب کہ ایک سویلین عدنان خان کو 10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔
سابق صدر پر حملے میں ملوث ہونے کے جرم میں موت کی سزا پانے والے 12 افراد میں فوج کے نائیک کے علاوہ ایئرفورس کے چار اہلکار شامل تھے۔
انگریزی ماہ نامہ ہیرالڈ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق 25 دسمبر کے حملے کیلئے رانا نوید کے اے ڈی بی پی کالونی میں واقع فلیٹ میں اسلحہ رکھا گیا تھا۔
Source link